
شام غریباں
ناظرین، "شام غریباں" ایک ایسا لفظ ہے جسے سنتے ہی ہمارے ذہن میں بہت سے سوالات اور تجسس پیدا ہو جاتا ہے۔
یہ سوالات ہمیں گھیرے رکھتے ہیں اور ہم جاننا چاہتے ہیں کہ آخر "شام
غریباں" میں ہوتا کیا ہے؟ کیا واقعی شیعہ حضرات رات کی تاریکی میں، لائٹیں بجھا کر، کسی غلط کام کا ارتکاب کرتے ہیں؟ آج ہم نے سوچا
کہ کیوں نہ آپ کو اس حقیقت سے آگاہ کیا جائے،
اور ان تمام بے بنیاد افواہوں کا پردہ چاک کیا جائے۔ ہماری آپ سے درخواست ہے کہ اس ویڈیو کو آخر تک ضرور دیکھیں
، اس رات کے بارے میں ہمیں روزانہ نت نئی باتیں سننے کو ملتی ہیں۔ سب سے مشہور روایت یہ ہے کہ 10
محرم کی رات کو تمام شیعہ حضرات امام بارگاہ میں اکٹھے ہوتے ہیں، جن میں خواتین کی بھی ایک بڑی تعداد شامل ہوتی ہے۔ جب سب لوگ جمع ہو جاتے ہیں
تو امام بارگاہ کا دروازہ باہر سے بند کر دیا جاتا ہے، اور پھر ایک شیعہ عالم مجلس پڑھتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی ساری بتیاں بجھا دی
جاتی ہیں، اور پھر مرد و زن مل کر شرمناک کام انجام دیتے ہیں، جس سے پیدا ہونے والے بچوں کو شیعہ ذاکر بنایا جاتا ہے۔
اتنا ہی نہیں، کچھ لوگ تو یہ بھی کہتے ہیں کہ شیعہ حضرات سنی بچوں کو اغوا کر کے ان کا خون اپنی نیازوں میں ملاتے ہیں اور پھر اسے بڑے شوق سے تقسیم کرتے ہیں۔ یہ سب باتیں سن کر دل دہل جاتا ہے۔
لیکن اگر ہم حقیقت کی بات کریں تو یہ تمام کہانیاں بالکل جھوٹی، من گھڑت اور فضول ہیں۔ ان باتوں کا حقیقت سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ سب دراصل معاشرے میں امن و امان خراب کرنے کی سازشیں ہیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ ہم روز بروز اس سازش کا شکار ہوتے جا رہے ہیں۔ اس سے بھی زیادہ دکھ کی بات یہ ہے کہ ہمارے کچھ نادان دوست 10 محرم کو امام بارگاہ کے باہر صرف اس انتظار میں کھڑے ہوتے ہیں کہ شاید انہیں بھی اس "غلط کام" میں حصہ ڈالنے کا موقع ملے۔ لیکن ایسا کچھ نہیں ہوتا اور وہ مایوس ہو کر واپس لوٹ جاتے ہیں۔
ایک شخص اپنی آپ بیتی سناتے ہوئے بتاتا ہے کہ "میں ایک دیہاتی گھرانے میں پیدا ہوا، اور مذہب کے بارے میں میری معلومات صرف گاؤں کے مولوی صاحب تک محدود تھیں۔ ان کی کل قابلیت یہ تھی کہ وہ پرانے مولوی صاحب کے بیٹے تھے، جو ان کے انتقال کے بعد خود بخود نئے مولوی بن گئے تھے۔ مجھے روزانہ شیعوں کے بارے میں ایسی ایسی باتیں سننے کو ملتیں جو مجھے پریشان کر دیتی تھیں۔ انہی میں سے ایک "شام غریباں" بھی تھی، جس کے بارے میں ہمارے مولوی صاحب کی ذہنیت انتہائی غلط تھی۔
"وہ بتاتے ہیں کہ جب میں نے میٹرک کے بعد کالج میں داخلہ لیا تو مجھے معلوم ہوا کہ میرا ایک ہم جماعت شیعہ ہے۔ پہلے تو میں اسے تجسس سے دیکھتا رہا، بلکہ بغور دیکھا، تو وہ ایک عام انسان ہی لگا۔ کچھ عرصے بعد ہم تین دوست بیٹھے تھے کہ وہ لڑکا بھی آ کر ہمارے پاس بیٹھ گیا۔ میں نے موقع غنیمت جانا اور مولوی صاحب کی بتائی ہوئی تمام باتیں پوچھنا شروع کر دیں۔ جب میں سب کچھ کہہ چکا تو اس کا چہرہ سرخ ہو چکا تھا، مگر اس نے صرف اتنا کہا کہ 'یہ ساری باتیں غلط ہیں' اور اٹھ کر چلا گیا۔"
ایک شخص اپنی آپ بیتی سناتے ہوئے بتاتا ہے کہ "میں ایک دیہاتی گھرانے میں پیدا ہوا، اور مذہب کے بارے میں میری معلومات صرف گاؤں کے مولوی صاحب تک محدود تھیں۔ ان کی کل قابلیت یہ تھی کہ وہ پرانے مولوی صاحب کے بیٹے تھے، جو ان کے انتقال کے بعد خود بخود نئے مولوی بن گئے تھے۔ مجھے روزانہ شیعوں کے بارے میں ایسی ایسی باتیں سننے کو ملتیں جو مجھے پریشان کر دیتی تھیں۔ انہی میں سے ایک "شام غریباں" بھی تھی، جس کے بارے میں ہمارے مولوی صاحب کی ذہنیت انتہائی غلط تھی۔"
"وہ بتاتے ہیں کہ جب میں نے میٹرک کے بعد کالج میں داخلہ لیا تو مجھے معلوم ہوا کہ میرا ایک ہم جماعت شیعہ ہے۔ پہلے تو میں اسے تجسس سے دیکھتا رہا، بلکہ بغور دیکھا، تو وہ ایک عام انسان ہی لگا۔ کچھ عرصے بعد ہم تین دوست بیٹھے تھے کہ وہ لڑکا بھی آ کر ہمارے پاس بیٹھ گیا۔ میں نے موقع غنیمت جانا اور مولوی صاحب کی بتائی ہوئی تمام باتیں پوچھنا شروع کر دیں۔ جب میں سب کچھ کہہ چکا تو اس کا چہرہ سرخ ہو چکا تھا، مگر اس نے صرف اتنا کہا کہ 'یہ ساری باتیں غلط ہیں' اور اٹھ کر چلا گیا۔" اب ذاکر نے بولنا شروع کیا: 'لوگو! تمہارے نبی کا نواسہ شہید کر دیا گیا ہے اور نبی زادیاں اب دشمن کے نرغے میں ہیں جنہیں قید کیا جا چکا ہے'۔ اپنی آپ بیتی بتانے والے کہتے ہیں کہ 'ہر جملہ میرے دل میں خنجر کی طرح پیوست ہو رہا تھا اور شور گریہ مجھے اپنی طرف کھینچ رہا تھا۔ اب خواتین کے رونے کی آوازیں بھی نیچے آنے لگیں۔ ذاکر کہہ رہا تھا: 'آج صبح ماؤں کے پاس بیٹے تھے، لیکن اب شام غریباں ہے اور وہ بیٹے نہیں رہے'۔ ذاکر پڑھتا رہا اور مجھے پتہ ہی نہیں چلا کہ کب میری آنکھوں سے آنسو بہنا شروع ہو گئے، کب ہچکیاں بنیں اور کب آواز بلند ہو گئی۔ اتنے میں میرا شیعہ دوست مجھ سے گلے لگ کر رونے لگا اور بلند آواز سے کہنے لگا کہ 'یہ ہوتی ہے شام غریباں، یعنی غریبوں کی شام'۔"
وہ بتاتے ہیں کہ "میں اس دن کے بعد خاموش ہو گیا۔ میرے سارے سوالات، میرے سارے شکوک، سب مٹی ہو چکے تھے۔ میں خود سے شرمندہ تھا کہ میں نے بغیر سمجھے، بغیر جانے کتنا بڑا الزام لگا دیا تھا۔ جو لوگ ہمیں سچ بتانا چاہتے تھے، ہم نے ان کو جھوٹا کہا اور جو ہمیں نفرت سکھا رہے تھے، ہم نے انہیں اپنا استاد مان لیا۔"
"شام غریباں وہ رات نہیں تھی جسے میں نے گاؤں میں سنا تھا۔ بلکہ وہ دین کے درد، وفاداری اور قربانی کی ایک مقدس یاد تھی۔ اس رات چراغ نہیں بجھائے جاتے، دل جلائے جاتے ہیں۔ وہاں شرمناک کام نہیں ہوتے، بلکہ نبی کے نواسے کی حرمت اور مظلومیت کا ماتم ہوتا ہے۔ میری آنکھوں کے آنسو رکنے کا نام نہیں لے رہے تھے اور میرے دل سے بار بار یہی صدا آ رہی تھی: 'کاش یہ بات ہمیں پہلے سمجھ آ جاتی! کاش ہم نفرت نہیں، حقیقت سیکھتے!'"
"جب میں امام بارگاہ سے نکلا تو میں وہ شخص نہیں رہا تھا جو اندر گیا تھا۔ میری سوچ، میرا دل، میری روح، سب کچھ بدل چکا تھا۔ باہر گلیوں میں اب بھی سناٹا چھایا ہوا تھا اور لوگ آہستہ آہستہ گھروں کو جا رہے تھے۔ مگر میرے اندر کا شور ابھی بھی جاری تھا۔ مجھے اپنے آپ سے نفرت ہو رہی تھی کہ میں نے ایسی مقدس رات کے بارے میں کیسے کیسے خیالات پال رکھے تھے۔ لیکن پھر ایک اطمینان بھی تھا کہ کم از کم اب میں سچ جان چکا ہوں۔ میں نے حقیقت کو اپنی آنکھوں سے دیکھا، اپنے کانوں سے سنا اور اپنے دل سے محسوس کیا۔"
یاد رکھیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: "میں حسین سے ہوں اور حسین مجھ سے ہے۔ اللہ اس سے محبت کرتا ہے جو حسین سے محبت کرے۔" اس حدیث پاک سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ محرم کا مہینہ صرف غم کا نہیں بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نواسے کی عظیم قربانی کو یاد کرکے اس سے سبق لینے کا مہینہ ہے۔ یہ مہینہ ہمیں صبر، وفاداری، تقوے اور ظلم کے خلاف ڈٹ جانے کا پیغام دیتا ہے۔
ہمیں چاہیے کہ محرم کا مہینہ نہ صرف غم اور آنسوؤں میں گزاریں بلکہ اس کی روح کو سمجھ کر اپنی زندگی میں تبدیلی لائیں۔اس مہینے میں نیک اعمال بڑھا دیں، غیبت، جھوٹ، چغلی اور نفرت جیسی برائیوں سے بچیں
اتنا ہی نہیں، کچھ لوگ تو یہ بھی کہتے ہیں کہ شیعہ حضرات سنی بچوں کو اغوا کر کے ان کا خون اپنی نیازوں میں ملاتے ہیں اور پھر اسے بڑے شوق سے تقسیم کرتے ہیں۔ یہ سب باتیں سن کر دل دہل جاتا ہے۔
لیکن اگر ہم حقیقت کی بات کریں تو یہ تمام کہانیاں بالکل جھوٹی، من گھڑت اور فضول ہیں۔ ان باتوں کا حقیقت سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ سب دراصل معاشرے میں امن و امان خراب کرنے کی سازشیں ہیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ ہم روز بروز اس سازش کا شکار ہوتے جا رہے ہیں۔ اس سے بھی زیادہ دکھ کی بات یہ ہے کہ ہمارے کچھ نادان دوست 10 محرم کو امام بارگاہ کے باہر صرف اس انتظار میں کھڑے ہوتے ہیں کہ شاید انہیں بھی اس "غلط کام" میں حصہ ڈالنے کا موقع ملے۔ لیکن ایسا کچھ نہیں ہوتا اور وہ مایوس ہو کر واپس لوٹ جاتے ہیں۔
ایک شخص اپنی آپ بیتی سناتے ہوئے بتاتا ہے کہ "میں ایک دیہاتی گھرانے میں پیدا ہوا، اور مذہب کے بارے میں میری معلومات صرف گاؤں کے مولوی صاحب تک محدود تھیں۔ ان کی کل قابلیت یہ تھی کہ وہ پرانے مولوی صاحب کے بیٹے تھے، جو ان کے انتقال کے بعد خود بخود نئے مولوی بن گئے تھے۔ مجھے روزانہ شیعوں کے بارے میں ایسی ایسی باتیں سننے کو ملتیں جو مجھے پریشان کر دیتی تھیں۔ انہی میں سے ایک "شام غریباں" بھی تھی، جس کے بارے میں ہمارے مولوی صاحب کی ذہنیت انتہائی غلط تھی۔
"وہ بتاتے ہیں کہ جب میں نے میٹرک کے بعد کالج میں داخلہ لیا تو مجھے معلوم ہوا کہ میرا ایک ہم جماعت شیعہ ہے۔ پہلے تو میں اسے تجسس سے دیکھتا رہا، بلکہ بغور دیکھا، تو وہ ایک عام انسان ہی لگا۔ کچھ عرصے بعد ہم تین دوست بیٹھے تھے کہ وہ لڑکا بھی آ کر ہمارے پاس بیٹھ گیا۔ میں نے موقع غنیمت جانا اور مولوی صاحب کی بتائی ہوئی تمام باتیں پوچھنا شروع کر دیں۔ جب میں سب کچھ کہہ چکا تو اس کا چہرہ سرخ ہو چکا تھا، مگر اس نے صرف اتنا کہا کہ 'یہ ساری باتیں غلط ہیں' اور اٹھ کر چلا گیا۔"
ایک شخص اپنی آپ بیتی سناتے ہوئے بتاتا ہے کہ "میں ایک دیہاتی گھرانے میں پیدا ہوا، اور مذہب کے بارے میں میری معلومات صرف گاؤں کے مولوی صاحب تک محدود تھیں۔ ان کی کل قابلیت یہ تھی کہ وہ پرانے مولوی صاحب کے بیٹے تھے، جو ان کے انتقال کے بعد خود بخود نئے مولوی بن گئے تھے۔ مجھے روزانہ شیعوں کے بارے میں ایسی ایسی باتیں سننے کو ملتیں جو مجھے پریشان کر دیتی تھیں۔ انہی میں سے ایک "شام غریباں" بھی تھی، جس کے بارے میں ہمارے مولوی صاحب کی ذہنیت انتہائی غلط تھی۔"
"وہ بتاتے ہیں کہ جب میں نے میٹرک کے بعد کالج میں داخلہ لیا تو مجھے معلوم ہوا کہ میرا ایک ہم جماعت شیعہ ہے۔ پہلے تو میں اسے تجسس سے دیکھتا رہا، بلکہ بغور دیکھا، تو وہ ایک عام انسان ہی لگا۔ کچھ عرصے بعد ہم تین دوست بیٹھے تھے کہ وہ لڑکا بھی آ کر ہمارے پاس بیٹھ گیا۔ میں نے موقع غنیمت جانا اور مولوی صاحب کی بتائی ہوئی تمام باتیں پوچھنا شروع کر دیں۔ جب میں سب کچھ کہہ چکا تو اس کا چہرہ سرخ ہو چکا تھا، مگر اس نے صرف اتنا کہا کہ 'یہ ساری باتیں غلط ہیں' اور اٹھ کر چلا گیا۔" اب ذاکر نے بولنا شروع کیا: 'لوگو! تمہارے نبی کا نواسہ شہید کر دیا گیا ہے اور نبی زادیاں اب دشمن کے نرغے میں ہیں جنہیں قید کیا جا چکا ہے'۔ اپنی آپ بیتی بتانے والے کہتے ہیں کہ 'ہر جملہ میرے دل میں خنجر کی طرح پیوست ہو رہا تھا اور شور گریہ مجھے اپنی طرف کھینچ رہا تھا۔ اب خواتین کے رونے کی آوازیں بھی نیچے آنے لگیں۔ ذاکر کہہ رہا تھا: 'آج صبح ماؤں کے پاس بیٹے تھے، لیکن اب شام غریباں ہے اور وہ بیٹے نہیں رہے'۔ ذاکر پڑھتا رہا اور مجھے پتہ ہی نہیں چلا کہ کب میری آنکھوں سے آنسو بہنا شروع ہو گئے، کب ہچکیاں بنیں اور کب آواز بلند ہو گئی۔ اتنے میں میرا شیعہ دوست مجھ سے گلے لگ کر رونے لگا اور بلند آواز سے کہنے لگا کہ 'یہ ہوتی ہے شام غریباں، یعنی غریبوں کی شام'۔"
وہ بتاتے ہیں کہ "میں اس دن کے بعد خاموش ہو گیا۔ میرے سارے سوالات، میرے سارے شکوک، سب مٹی ہو چکے تھے۔ میں خود سے شرمندہ تھا کہ میں نے بغیر سمجھے، بغیر جانے کتنا بڑا الزام لگا دیا تھا۔ جو لوگ ہمیں سچ بتانا چاہتے تھے، ہم نے ان کو جھوٹا کہا اور جو ہمیں نفرت سکھا رہے تھے، ہم نے انہیں اپنا استاد مان لیا۔"
"شام غریباں وہ رات نہیں تھی جسے میں نے گاؤں میں سنا تھا۔ بلکہ وہ دین کے درد، وفاداری اور قربانی کی ایک مقدس یاد تھی۔ اس رات چراغ نہیں بجھائے جاتے، دل جلائے جاتے ہیں۔ وہاں شرمناک کام نہیں ہوتے، بلکہ نبی کے نواسے کی حرمت اور مظلومیت کا ماتم ہوتا ہے۔ میری آنکھوں کے آنسو رکنے کا نام نہیں لے رہے تھے اور میرے دل سے بار بار یہی صدا آ رہی تھی: 'کاش یہ بات ہمیں پہلے سمجھ آ جاتی! کاش ہم نفرت نہیں، حقیقت سیکھتے!'"
"جب میں امام بارگاہ سے نکلا تو میں وہ شخص نہیں رہا تھا جو اندر گیا تھا۔ میری سوچ، میرا دل، میری روح، سب کچھ بدل چکا تھا۔ باہر گلیوں میں اب بھی سناٹا چھایا ہوا تھا اور لوگ آہستہ آہستہ گھروں کو جا رہے تھے۔ مگر میرے اندر کا شور ابھی بھی جاری تھا۔ مجھے اپنے آپ سے نفرت ہو رہی تھی کہ میں نے ایسی مقدس رات کے بارے میں کیسے کیسے خیالات پال رکھے تھے۔ لیکن پھر ایک اطمینان بھی تھا کہ کم از کم اب میں سچ جان چکا ہوں۔ میں نے حقیقت کو اپنی آنکھوں سے دیکھا، اپنے کانوں سے سنا اور اپنے دل سے محسوس کیا۔"
یاد رکھیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: "میں حسین سے ہوں اور حسین مجھ سے ہے۔ اللہ اس سے محبت کرتا ہے جو حسین سے محبت کرے۔" اس حدیث پاک سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ محرم کا مہینہ صرف غم کا نہیں بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نواسے کی عظیم قربانی کو یاد کرکے اس سے سبق لینے کا مہینہ ہے۔ یہ مہینہ ہمیں صبر، وفاداری، تقوے اور ظلم کے خلاف ڈٹ جانے کا پیغام دیتا ہے۔
ہمیں چاہیے کہ محرم کا مہینہ نہ صرف غم اور آنسوؤں میں گزاریں بلکہ اس کی روح کو سمجھ کر اپنی زندگی میں تبدیلی لائیں۔اس مہینے میں نیک اعمال بڑھا دیں، غیبت، جھوٹ، چغلی اور نفرت جیسی برائیوں سے بچیں